Wednesday, November 22, 2017

مشاہدات و واقعات




ایک چھ ماہ کے بچے کو کو لایا گیا جس میں پانی کی شدید کمی ہو چکی تھی۔اس کے ساتھ کمزور سی ماں جس کے دونوں ہاتھوں پر برینولا دیکھ کر میرے ذہن میں کہانی یوں لکھی گئی کہ ماں زیادہ بیمار ہو گئی ہوگی اور بچے کو سنبھالنے والا گھر میں کوئی نہیں ہوگا۔ اور اس لاپرواہی سے بچہ بیمار ہو کر اس حالت میں چلا گیا ہے۔ مگر جب معائینہ کرنے کے بعد میں نے کہا کہ بچے میں پانی کی بہت زیادہ کمی ہے اور ڈرپ لگانی پڑے گی تو بچے کا باپ بولا۔
 دو ڈرپیں تو اس کی ماں کو لگ چکیں ہیں اس سے تو بچے کی پانی کی کمی پوری نہیں ہوئی تو اب کیسے ہو گی؟
میں نے پوچھا ڈرپ اور ماں کو کو کیوں؟
 تو جواب آیا گاؤں کے ڈاکٹر نے ڈرپ لگانے کی کوشش کی تھی مگر سوئی نہ لگ سکی تو اس نے کہا چونکہ بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے اسلئے ڈرپیں ماں کو لگا دیتے ہیں ، دودھ کے رستے بچے کو چلیں جائیں گی
جی ہاں اب دل کھول کر سر پیٹیں اور اپنے حسن مزاح کو داد دیں عوام کے شعور اور حکومتی ذمہ داریوں پر انگلیاں مت اٹھائیں۔ یہ کسی مزاح نگار کے قلم سے پھوٹتے شگوفے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ کسی قلم کار کے ذہن کی تخلیق ہیں۔یہ ان بیشمار واقعات میں سے چند ایک ہیں جن سے ہمارا رازانہ واسطہ پڑتا ہے

مشاہدات و واقعات




جب چار ماہ کا بچہ دوبارہ 103 بخار کے ساتھ آیا تو میں نے پوچھا  جو دوائی آپ کو دی تھی وہ ہے یا ختم ہو گئی ہے؟
  تو دادی فوراً بولی  پتڑ ، ساری دوا پلا چھڈی آ 
پر بخار نئی ٹٹیا
ساری دوائی پلا دی تھی لیکن بخار نہیں ختم ہوا 
میں نے پھر پوچھا بچہ دوائی پی کر کہیں الٹی تو نہیں کر دیتا میرا مطلب ہے دوائی بچے کے پیٹ میں تو چلی جاتی ہے؟ 
ہاں جی بالکل۔۔
بچے کو تو ہم نے دوا دی ہی نہیں۔ چونکہ یہ دودھ اپنی ماں کا پیتا ہے اسلئے دوا اس کی ماں کو پلا دی تھی۔اسلئے ساری دوا بچے تک پہنچتی رہی ہے۔

مشاہدات و واقعات




اس واقعے کے بعد جب حاجی مقبول صاحب نے ہاتھ آگے بڑھا دیا اور نبض دیکھ کر مرض بوجھنے کو کہا تو میں نے کچھ دیر تک نبض دیکھی اور پھر ہاتھ نبض پر رکھے اپنے کمپیوٹر پر فیس بک دیکھنے میں مصروف ہو گیاحاجی صاحب کچھ دیر تو انتظار کرتے رہے پھر گویا ہوئے 
 پتڑ کی کرن ڈیاں ہویاں۔تیرے کولوں ھالے نئیں میری بیماری بجھی نئی گئی۔ او میں خربوزے کھا کے اتوں پانی پی لتا سی جیدی وجہ توں مینوں ہیضہ ہو گیا سی؟
بیٹا کیا کر رہے ہو۔میری بیماری ابھی تک ڈھونڈ نہیں پائے۔میں نے خربوزے کھا کر اوپر سے پانی پی لیا تھا جس کی وجہ سے ہیضہ ہوگیا ہے 
میں نے فورا جواب دیا 
بماری تے میْں لب لئی سی پر ۔میں خربوزے دی قسم لبھن ڈیا ہویا سی۔۔تاکہ سہی دوا دے سکاں۔
بیماری تو میں نے ڈھونڈ لی تھی لیکن میں خربوزے کی قسم تلاش کر رھا تھا
 حاجی مقبول صاحب میری قابلیت کی داد دیتے ہوئے پرچی لئے کمرے سے رخصت ہوئے تو دیر تک مسکراہٹ میرے لبوں اور آنکھوں سے نمودار ہوتی رہی

مشاہدات و واقعات



لاجواب تو مجھے اس بابا جی نے بھی کر دیا تھا جو سوجی ہوئی ٹانگ کے ساتھ آئے اور اصرا ر کرنے لگے کہ نبض دیکھ کر میری مرض بوجھو۔ میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ میں کوئی حکیم نہیں ہوں مگر چارو ناچار نبض پکڑ کر پوچھا بابا جی چوٹ کیسے لگی تھی؟ 
باباجی تراخ سے بولے رہ گئی نا ساری ڈاکٹری۔ 
بڑی تعریف سنی سی تیری۔ تینوں اے وی نئی پتا لگا ، مینوں مج نے ٹڈ ماری سی ۔
میں نے تھوڑا احتجاج کیا کہ میں قریب قریب پہنچ گیا تھا مگر بابا جی ناراض ہو کر دوائی لئے بغیر چلے گئے

مشاہدات و واقعات



اس دن مجھے معلوم ہوا میری حس مزاح کس قدر کمزور ہے ۔
یہ دو ماہ کا بچہ میرے پاس آیا تو میں نے اچھی طرح سمجھایا کہ اس کی کو سوائے ماں کے دودھ کے کوئی چیز نہیں دینی ہے۔جب یہ بچہ دوبارہ دستوں کے ساتھ آیا تو اس کے باپ نے شکائیت لگائی کہ آپ نے تو صرف ماں کے دودھ سوا ہر چیزدینے سے منع کیا تھا مگر اس کی ماں اس کو چائے بھی پلاتی ہے۔ میں نے طنزاً ماں سے کہا اس کو برفی بھی کھلانا تھی۔ وہ بڑی خوشی سے بولی  کھلائی تھی ڈاکٹر صاحب مگر اینے ہضم نہیں کیتی سی۔۔کھلائی تو تھی مگر اس نے ہضم نہیں کی

مشاہدات و واقعات



اس دن ایک آدمی تین عورتوں اور بچوں کے ہمراہ میرے کمرے میں داخل ہونے کے بعد فوراً میری تعریف میں زمین و آسمان ایک کرنے لگا۔اور میری قابلیت اور طبی جواہر کو کئی رنگ دینے لگا۔ پہلے تو کچھ خوشی ہوئی پھر مسرت کے نشے میں دماغ کچھ خمار کا شکار ہوا۔جب وجہ تسمیہ تعریف و رجان پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ جو بچہ دیکھ رہے ہیں اس کی خارش کے علاج کیلئے ہم نے کوئی ڈاکٹر نہیں چھوڑا تھاکوئی حکیم اور ایسا نسخہ نہیں جو ہم نے آزمایا نہ ہولیکن آپ کے پاس صرف ایک بار آئے تھے اور یہ آپ کی دوائی سے ٹھیک ہو گیا تھاابھی وہ تعریفی کلمات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے ہی والا تھا کہ میں نے ٹوکا اب کس سلسلے میں آئے ہیں؟ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب یہ سارے گاؤں کے خارش کے مریض میرے پاس لانے والا ہے۔اس نے ایک عورت کو آگے بڑھ کر معائنے والے سٹول پر بیٹھنے کو کہا اور بولا ڈاکٹر صاحب اس کی شادی کو آٹھ سال ہو گئے ہیں اور ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی ہے۔ہم آپ کے پاس بڑے یقین اور امید کیساتھ آئے ہیں۔۔۔

صرف بالغوں کیلئے




سخت گرمی کے موسم میں میاں بیوی میرے پاس آئے۔ بیوی کو الرجی کی شکائیت تھی دوائی لکھنے کے بعد میں نے دن میں تین چار بار نہانے کا مشورہ بھی دیا۔ مشورہ سن کر خاوند ہنس کر بولا ڈاکٹر صاحب آپ نے دن میں تین چار بارکہا ہے یہ تو اس گرمی میں بھی ہفتہ ہفتہ نہیں نہاتی۔ اس کی بات سن کر میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا جو اس کی سمجھ میں آیا یا نہیں لیکن میں یاد کر کے اکثر مسکرا پڑتا ہوں ’’ تو اس میں قصور تو تمہارا ہوا نا
بابا فضل کو اس کا بیٹا کمر درد کے ساتھ لایا تو چیک اپ کے بعد دوئی کی پرچی لیکر باپ بیٹا کمرے سے چلے گئے تو تھوری دیر بعد بیٹا کمرے میں دوبارہ داخل ہوا اورکہنے لگا ڈاکٹر صاحب ابا جی کی بیماری کے بارے میں کچھ حقیقت کرنا تھی میں نے کہا بتاؤ تو کہنے لگا۔۔ شادی تو پچھلے مہینے میری ہوئی ہے ۔بڑھاپے میں اب اماں ابا کی عمر اجازت نہیں دیتی اور صحت بھی وہ نہیں رہی ۔کمر میں تکلیف ہی ہوگی نا ، کچھ آپ ہی ان کو سمجھائیں
ہمارے ہاں دیوروں پر لکھے اشتہاروں، ٹی وی اور دوسرے میڈیا کے ذریعے بنائی گئی ذہنی پستی کی فضا نے ہمارے نوجوانوں کو کس قدر متاثر کیا ہے اس کا اندازہ اس واقعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک نوجوان کو جس کی ایک ہفتے بعد شادی تھی اور پچھلے تین دن سے پیٹ درد اور الٹی کی شکائیت سے سرکاری ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد بھی اس کی طبیعت نہ سنبھلی تو میرے پاس لایا گیا۔ تمام رپورٹیں بھی نارمل تھیں اور بظاہر صحت اور علامتوں میں تعلق بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ باپ کو اس کی جلد صحت یابی کی فکر اس لئے بھی تھی کہ لڑکی والے انگلینڈ سے آئے تھے اور تاریخ التوا میں نہیں ڈالی جا سکتی تھی۔ جب میں نے واضح لفظوں میں بتایا کہ مجھے تو لڑکے کی بیماری سارا ڈرامہ لگ رہا ہے تو اس کے ایک دوست نے دفتر میں آکر تصدیق کی آپ کی بات صحیح ہے، وہ حکیم صاحب سے شادی کورس کر رہا ہے ا ور ابھی حکیم ٖصاحب نے اجازت نہیں دی اور اس کے باپ نے بغیر مشورہ کے تاریخ بھی طے کر دی ہے۔
بارات جیسے ہی واپس لوٹی امجد صاحب سب سے دامن چھڑا کر میرے پاس گھر پر آگئے اور کہنے لگے کوئی اچھی سی دوا دو۔ کچھ سمجھانے کی بحث سے بچتے ہوئے گھر سے بسکوپین کی دو گولیاں پتے سے نکال کر اسے لا کر دیں اور کہا اسے دودھ کے ساتھ استعمال کر لینا۔ اس گولی نے کیا افادیت دکھائی اس کا اندازہ چند دن بعد رات کو ایک سجے سجائے نوجوان کو اپنے گھر کے دروازے پر موجود پا کر ہوا جس نے کہا آپ کو امجد صاحب کا فون تو آیا ہی ہوگا ۔ ۔۔۔ 

مشاہدات و واقعات

ایک چھ ماہ کے بچے کو کو لایا گیا جس میں پانی کی شدید کمی ہو چکی تھی۔اس کے ساتھ کمزور سی ماں جس کے دونوں ہاتھوں پر برینولا دیکھ کر میرے...