ایک چھ ماہ کے بچے کو کو لایا گیا جس میں پانی کی شدید کمی ہو چکی تھی۔اس کے ساتھ کمزور سی ماں جس کے دونوں ہاتھوں پر برینولا دیکھ کر میرے ذہن میں کہانی یوں لکھی گئی کہ ماں زیادہ بیمار ہو گئی ہوگی اور بچے کو سنبھالنے والا گھر میں کوئی نہیں ہوگا۔ اور اس لاپرواہی سے بچہ بیمار ہو کر اس حالت میں چلا گیا ہے۔ مگر جب معائینہ کرنے کے بعد میں نے کہا کہ بچے میں پانی کی بہت زیادہ کمی ہے اور ڈرپ لگانی پڑے گی تو بچے کا باپ بولا۔
دو ڈرپیں تو اس کی ماں کو لگ چکیں ہیں اس سے تو بچے کی پانی کی کمی پوری نہیں ہوئی تو اب کیسے ہو گی؟
میں نے پوچھا ڈرپ اور ماں کو کو کیوں؟
تو جواب آیا گاؤں کے ڈاکٹر نے ڈرپ لگانے کی کوشش کی تھی مگر سوئی نہ لگ سکی تو اس نے کہا چونکہ بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے اسلئے ڈرپیں ماں کو لگا دیتے ہیں ، دودھ کے رستے بچے کو چلیں جائیں گی
دو ڈرپیں تو اس کی ماں کو لگ چکیں ہیں اس سے تو بچے کی پانی کی کمی پوری نہیں ہوئی تو اب کیسے ہو گی؟
میں نے پوچھا ڈرپ اور ماں کو کو کیوں؟
تو جواب آیا گاؤں کے ڈاکٹر نے ڈرپ لگانے کی کوشش کی تھی مگر سوئی نہ لگ سکی تو اس نے کہا چونکہ بچہ ماں کا دودھ پیتا ہے اسلئے ڈرپیں ماں کو لگا دیتے ہیں ، دودھ کے رستے بچے کو چلیں جائیں گی
جی ہاں اب دل کھول کر سر پیٹیں اور اپنے حسن مزاح کو داد دیں عوام کے شعور اور حکومتی ذمہ داریوں پر انگلیاں مت اٹھائیں۔ یہ کسی مزاح نگار کے قلم سے پھوٹتے شگوفے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ کسی قلم کار کے ذہن کی تخلیق ہیں۔یہ ان بیشمار واقعات میں سے چند ایک ہیں جن سے ہمارا رازانہ واسطہ پڑتا ہے